بچے ایک دوسرے کے ساتھ چیزیں مل بانٹ کر استعمال کرنا سیکھتے ہیں اس کے علاوہ آپس میں تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں تو ان میں دوستی اور محبت پروان چڑھتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بچے دوسروں کی ضروریات اور خواہشات کا احترام کرنا بھی سیکھتے ہیں
وقت کا تیز رفتار پہیہ جب چلتا ہے تو اپنے پیچھے دھول مٹی چھوڑ جاتا ہے۔ جب یہ دھول ہٹتی ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وقت تو بہت آگے نکل گیا ہے اور اس تیزی سے گزرتے وقت نے معاشرتی زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ نقوش بدلتی ہوئی اقدار‘ رسم ورواج اور ہماری پسند و ناپسند میں تبدیلی کی صورت میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم ان تبدیلیوں کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے قبول کرلیتے ہیں۔ انہیں اپنی زندگی میں شامل کرلیتے ہیں۔ پہلے ہم دیسی کھانوں کو زیادہ پسند کرتے تھے مگر اب پیزا اور برگر ہماری خوراک کا حصہ بن گئے ہیں اور اب ہم بدیسی کھانوں کے ذائقوں سے آشنا ہونے لگے ہیں بالکل اسی طرح لباس کے معاملے میں بھی ہمارا انتخاب بدل چکا ہے۔ پرانے زمانے میں مغربی لباس ایک خاص طبقے تک محدود تھا لیکن آج تک یہ ہر خاص و عام کی پسند بن گیا ہے گھر کی بنی ہوئی چیزوں کی جگہ ریڈی میڈ اشیاء نے لے لی ہے۔ تغیرات کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جو زندہ معاشرے کی علامت ہے ورنہ جمود موت کا دوسرا نام ہے۔کچھ اسی طرح کے تغیرات کا شکار ہمارا خاندانی نظام بھی ہے۔ عام طور پر خاندانی نظام دو طرح کے ہوتے ہیں۔
1۔ مشترکہ خاندانی نظام جسے جوائنٹ فیملی سسٹم بھی کہا جاتا ہے۔ 2۔ اکائی خاندانی نظام جسے سنگل فیملی سسٹم بھی کہا جاتا ہے۔موجودہ دور میں سنگل فیملی سسٹم کو زیادہ ترجیح دی جارہی ہے اور اسی کو کامیاب خاندانی نظام سمجھا جاتا ہے مگر دوسری طرف مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت سے بھی بہت سے لوگوں کو انکار نہیں۔مشترکہ خاندانی نظام کی جڑیں بہت پرانی اور مضبوط ہیں۔ اتنی آسانی سے اس نظام کی بنیاد کو ہلایا نہیں جاسکتا۔ یہ نظام اپنے اندر بہت سی خوبیوں کو سموئے ہوئے ہے۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام کے فوائد:مشترکہ خاندانی نظام کی صورت میں ہم اپنے بزرگوں کے سائے میں رہتے ہیں جو ہمیں زمانے کے گرم و سرد حالات سے بچاتے ہیں قدم قدم پر اپنی ضروریات اور ترجیحات کو قربان کرکے ہماری ضروریات کو پورا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گھر میں کسی بزرگ کی موجودگی کو باعث رحمت سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کی پرورش اور تربیت کیلئے مشترکہ خاندانی نظام سے بہتر کوئی ادارہ نہیں۔ بچے ہر وقت گھر کے بزرگوں کے سامنے رہتے ہیں۔ والدین کی عدم موجودگی میں بھی انہیں بھرپور توجہ ملتی ہے۔ دادی اور نانی کی کہانیاں بچوں کی اخلاقی تربیت کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں یہ بزرگ ہی ہوتے ہیں جو بچوں کو اچھے برے میں تمیز سکھانے کے ساتھ ساتھ مذہب کے بارے میں معلومات بھی فراہم کرتے ہیں بچے کو جب بھرپور توجہ اور محبت ملتی ہے تو اس میں اعتماد پیدا ہوتا ہے یہ اعتماد کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دادا‘ دادی‘ نانا‘ نانی بچے کی تربیت میں بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں۔گھر میں موجود دیگر بچوں کی وجہ سے اس میں تنہائی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ وہ ان کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھتا ہے۔ بچے ایک دوسرے کے ساتھ چیزیں مل بانٹ کر استعمال کرنا سیکھتے ہیں اس کے علاوہ آپس میں تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں تو ان میں دوستی اور محبت پروان چڑھتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بچے دوسروں کی ضروریات اور خواہشات کا احترام کرنا بھی سیکھتے ہیں۔ یہ تمام باتیں بچے کی آنے والی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جب بچہ گھر سے نکل کر درس گاہ اور پھر عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو وہ لوگوں کے رویے سمجھنے‘ دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے اور مختلف حالات و مشکلات میں صبر اور برداشت کرنا سیکھتا ہے۔ لہٰذا نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ اس طرح وہ بآسانی کامیابی کی منزلیں طے کرسکتا ہے۔
شادیوں کی ناکامی کی وجہ:موجودہ دور میں ناکام شادیوں کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اس کی بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والی غلط فہمیاں ہیں۔ یہ غلط فہمیاں شادی شدہ زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔ لہٰذا اس مرحلے پر بزرگوں کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جو دونوں کو ان کی غلطیوں کا احساس دلائیں اور ان میں صلح صفائی کرواسکیں اور انہیں کامیاب ازدواجی زندگی کے گُر بتاسکیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذمے داریاں زیادہ ہونے کی وجہ سے صبر کا مادہ ختم ہوجاتا ہے اور سامنے والے کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بُری لگنے لگتی ہیں ایسے میں دونوں فریقین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا ہو جو ان تمام مسائل کو جھٹ سے ختم کردے تو یہ کمال گھر کے بزرگ ہی کرسکتے ہیں لیکن ایسا اس وقت ممکن ہے جب ہم گھر کے بڑوں کے ساتھ رہیں اور ان کے ساتھ اپنے معاملات کو یا مسائل کو حل کریں اور ان کی نصیحتوں پر عمل بھی کریں۔
مشترکہ خاندان نظام میں مل بیٹھنے کے بہت سے مواقع میسر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے گھر کے افراد میں آپس میں تعلق اور محبت کا رشتہ پھلتا پھولتا ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اس کے علاوہ خوشیوں کے موقعوں پر بھی بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خصوصاً تہوار کے دن میں رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔ سب لوگ تیاریوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان تیاریوں کا بھی اپنا ہی ایک الگ مزہ ہوتا ہے۔ مل جل کر تہوار منانے سے بچے اپنی روایات قدروں اور ثقافت سے روشناس ہوتے ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام میں الجھاؤ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خاندان کے افراد میں گنجائش سے زیادہ اضافہ ہوجائے کیونکہ افراد کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کی ضروریات اور ترجیحات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ گھر میں جگہ کم پڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے خاندان کے افراد کے درمیان ہر بات پر کھنچا تانی شروع ہوجاتی ہےہر ایک کو لگتا ہے اس کی حق تلفی ہورہی ہے۔ اس لیے خاندان کے بزرگوں کو چاہیے کہ جب ایک ہی گھر میں ایک سے زیادہ خاندان بن جائیں تو انہیں علیحدہ علیحدہ ذمے داریاں دیتے ہوئے کام کی تقسیم کریں اور اخراجات باہمی طور پر بانٹ لیں اور اگر ہوسکے تو گھر بھی الگ کردیں۔ گھر کے بزرگوں کا احترام سب پر لازم ہے۔ گھر کے معاملات میں ہر فرد کو اہمیت دیں۔ ان کی ضروریات اور خواہشات کا احترام کریں مشترکہ خاندانی نظام میں فرد واحد کو فیصلے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے بلکہ خاندان کے دیگر افراد کی رائے بھی لینی چاہیے تاکہ کسی بھی فرد کو اپنے غیراہم ہونے کا احساس نہ ہو۔گھر کے ہر فرد میں اختیارات و فرائض کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے تاکہ گھر کے مکینوں میں اختیارات کی جنگ نہ چھڑ جائے ورنہ یہ تفریق مشترکہ خاندانی نظام کو منتشر کردے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں